یہ آنسو دل کی زبان ہے 44

یہ آنسو دل کی زبان ہے

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
میں نے زلیخا کو ایک ہی نظرمیںاچھی طرح دیکھا اور پھر اُسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔ وہ بلاکی خوب صورت تھی۔ حسن وشباب کا بہتا سمندر ۔ اس کی چال، اس کی زُلفیں ، سرمئی آنکھیں، گلابی چہرہ سب کچھ بے مثال تھا۔ میں اللہ تعالیٰ کی اس صناعی کو دیکھ کردنگ رہ گیا۔
میں ہروقت اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتاتھا۔ اُس سے دوباتیں کرنے کی تمناتھی۔ وہ ہر وقت اپنی نظریں جھکائیں اِدھر اُدھر کے ماحول سے لاتعلق رہتی تھی۔
میں جب بھی اس کے قریب جانے کی ناکام کوشش کرتا تووہ چپکے سے وہاں سے کھِسک جاتی۔ اسکے اس برتاؤ سے مجھے بہت کوفت ہوتی تھی۔ میں ہر وقت اسی کے خیالوں میں ڈوبا رہتا ۔ نہ دِن کو چین اور نہ رات کوآرام۔ کئی بار تو یہ بھی خیال نہ رہتاکہ کیا کھارہاہوں۔ کبھی کبھی تو لقمہ منہ کے نزدیک لے جاتے جاتے ہاتھ وہیں رُک جاتا ۔ گھر والے کہتے’’ بھئی!کس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہو؟‘‘
میں کوئی جواب نہ دیتا ۔ اِدھر اُدھر کی کہہ کر ٹال دیتا ۔
رات کو نیند بھی نہیں آتی، کروٹیں بدل بدل کر رات کا وقت گذارتا۔ کبھی ریڈیو ۔ کبھی ٹیلی ویژن لگاتا ۔ اکثر موبائل فون پر گانے سنتا کہانیاں سنتا مگر کسی طورآرام نہ ملتا۔نیند کی کمی کی وجہ سے آنکھیں اندر کو دھنس گئیں۔ آنکھوں کے آگے سیاہ حلقے پڑنے لگے۔ ہر ایک پوچھتا’’الطاف صاحب! آج کل کیوں بجھے بجھے رہتے ہو۔ نہ کسی سے بات اورنہ کوئی پڑھائی کی بات۔ کلاس میں بھی کھوئے کھوئے سے رہتے ہو۔ کچھ تو بتاؤ؟ کیا پریشانی ہے ۔ شاید ہم آپ کی کچھ مدد کرسکیں۔‘‘
’’نہیں! کچھ نہیں!! بس یونہی کوئی بے وجہ سکون ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
میں لگاتار زلیخا کی تلاش میں گھومتا پھرتا کہ کہیں اسکی ایک جھلک مل جائے۔ وہ کلاس میں بھی مجھ سے دور رہنے کی کوشش کرتی۔ جس سے مجھے اور زیادہ تکلیف ہوتی بہت بار اس سے ملنے کی کوشش کی۔ بات کرناچاہی مگر وہ موقع ہی نہیںدیتی تھی۔ زلیخا یہ سب کچھ نوٹ کرکے خود بھی پریشان ہورہی تھی۔
اس کی حرکتوں سے صاف ظاہر ہوتاتھاکہ وہ مجھے نظرانداز کرنا چاہتی تھی۔ وہ صرف اپنی پڑھائی پر پورا دھیان دیناچاہتی تھی۔
اِدھرمیری پڑھائی برُی طرح متاثر ہوگئی۔ نہ کلاس میں دلچسپی، نہ گھر پر پڑھائی، نہ نیند ، نہ کھانا، نہ پینا۔ صرف کالج میں اِدھراُدھر زلیخا کی تلاش میں رہ کر وقت گذارنا۔
آخر ایک دن زلیخا نے مجھے کالج گراؤنڈ کے ایک کونے میں اکیلا پاکر پوچھ ہی لیا کہ جناب!! کیا بات ہے؟مجھے کیوں پریشان کررہے ہو؟ ہر وقت میرا پیچھا کرتے رہتے ہو۔ میری پڑھائی متاثر ہورہی ہے۔ میںایک یتیم لڑکی ہوں۔ میں کسی صورت میں یہ سب afford نہیں کرسکتی۔ میں اپنے ماموں کے ہاں رہتی ہوں۔ وہی میری ہر طرح کی نگہداشت کرتے ہیں۔
مجھے اپنی غربت سے مقابلہ کرنا ہے۔’’ٹھیک ہے۔ میں آپ کے ساتھ آپ کی غربت کامقابلہ کروں گا ‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’نہیں! مجھے یہ کام خود اکیلے کرنے دو ۔ بس!آپ مجھ سے دور رہو ‘‘۔ زلیخا نے کہا۔
’’آپ صرف میری التجا سنو۔ اس پر غورکرو۔ جب اطمینان ہو۔ تب میری خواہش پر اپنی رائے ظاہر کرنا۔ آپ آرام سے سوچ لو۔ کوئی جلدی نہیں ہے ۔ جتنا بھی وقت چاہئے لے لو۔ آپ ہر طرح سے مجھے پرکھ لو ۔ چانچ لو۔ ہرکسی سے پوچھ لو ۔ کہ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ کس قماش کا ہوں۔ کس کردار کاہوں وغیرہ وغیرہ ‘‘ میں نے جلدی جلدی سب کچھ سنادیا۔
’’پھر جب ہرطرف سے تسلی بخش جواب ملیں تو تب جاکر اس وقت مجھے جواب دینا۔تب تک میں آپ سے دور رہوں گا‘‘ ۔ میںنے مزید کہا
’’ٹھیک ہے۔ میں ایسا ہی کروں گی‘‘ ۔ زلیخا بولی جب پورا یقین ہوجائے تو پھراگلا قدم اٹھاؤں گی تب تک آپ مہربانی کرکے دور رہیں۔ میں اس وقت اپنے ماموں کے لئے کوئی پریشانی پیداکرنا چاہتی ۔ اگر ان کو کسی نے صرف اتنا کہا کہ زلیخا فلاں لڑکے سے بات کررہی تھی تو وہ میرا کالج آنا بند کردیں گے اور اس طرح میری پڑھائی ختم ہوجائے گی اور میری زندگی خراب ہوجائے گی اور پھر یہی زندگی ایک بھکارن کی سی زندگی ہوکر رہ جائے گی‘‘۔ زلیخا نے اپنا رد عمل سنا دیا وقت گذرتا گیا۔ہماری ملاقاتیںصرف کبھی کبھار موبائل پرالسلام علیکم تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ میں راتوں کو اٹھ اٹھ کرنمازوں میں اللہ کے حضور دعائیں مانگتا کہ میرے اللہ اگر میں اس معاملہ میں ایماندارہوں اوریہ سب کچھ میرے لئے بہتر ہے تو ہم دونوںکو آپس میں ملادے ۔
جب زلیخا کاBAکانتیجہ نکلا جس میں وہ کامیاب قراردی گئی تو میںنے مبارک دینے کے بعد جھجکتے جھجکتے پوچھ لیا کہ زلیخا جی ! آج پور ے چھ ماہ گذر گئے۔ اگرمیرے متعلق آپ کی انکوائری مکمل ہوگئی ہوتو مجھے بتائیں۔ میں بڑا بے تاب ہوں۔اگر میںپاس ہوگیا ہوں تو بڑے مبارک کی بات ہے اور اگر خدانخواستہ فیل ہوگیا ہوں تو پھر میںآپ کے راستے سے دور چلاجاؤں گا۔ پھر آپ بھی اور میں بھی اللہ کے حوالے ۔‘‘
کافی وقت گذر گیا۔ میری نوکری لگ گئی ۔مجھے ایک بڑی کمپنی میں چیف سپروائزر لگایا گیاجس میں تنخواہ بھی اچھی خاصی تھی باقی مراعات بھی حاصل تھیں ۔ میںنے ڈرتے ڈرتے زلیخا کو کہاکہ اب میں بڑے آرام سے آپ کے تمام اخراجات برداشت کرسکتاہوں۔
بس آپ کے ہاں کی دیری ہے۔’’میں موقع ملتے ہی اپنی ممانی سے کسی طرح ساری بات بتاؤں گی پھر……‘‘ زلیخانے جواب دیا۔
’’ بالکل ٹھیک ۔ مگر یہ کام ذرا جلدی کرنا‘‘ میں نے کہا
دل کو قدرے سکون ملا۔اللہ کا شکر کیا۔ امید کی کرن نظر آئی۔
صبح سہانی تھی میں اشراق کے دونفل پڑھ کر دعا سے فارغ ہوا ہی تھا کہ زلیخا کا فون آیا۔
’’دیکھئے !ممانی جی آپ سے خود ملنا چاہتی ہیں۔‘‘
’’بہت اچھا ۔ میں حاضر ہوجاؤںگا‘‘ ۔ میں نے جواب دیا
ممانی صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے بات کرکے بہت متاثر ہوئیں۔جس سے میری اُمید اور بڑھ گئی مزید دوتین ملاقاتوں کے بعد زلیخا کے ماموں جان والے راضی ہوگئے۔ مختصرمگرشرعی طریقوں سے نکاح اور شادی کی رسومات انجام پذیر ہوئیں۔ ہم دونوں کی ازدواجگی زندگی بڑے مزے سے گذرنے لگی۔ ہم دونوں سکون سے رہنے لگے ۔ اپنا مکان بنایا ،گاڑی خریدی ، اللہ نے بچے بھی دیئے ۔ ہم دن رات اللہ اور اس کے رسولؐ کا شکرادا کرکے تھکتے بھی نہ تھے ۔اسی طرح زندگی کے پینتالیس سال بیت گئے ۔ میری ریٹائرمنٹ ہوئی گریچوٹی اور جی پی فنڈ کا ڈھیر سارا روپیہ ملا۔ تب اور مزے کی زندگی گذرنے لگی۔
جیسا کہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے وہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہونے لگا ۔ کبھی یہ تکلیف تو کبھی وہ تکلیف ، کبھی نیند کی کمی تو کبھی معدہ کی گڑبڑ۔ آج اس کلنیک تو کل اس کلنیک۔ آج Neurologist تو کل Cardiologist ادھر زلیخا کا بھی وہی حال تھا۔
بلڈپریشر بھی ظاہر ہوا۔ شوگر کا عارضہ بھی آگیا۔ سب سے زیادہ کمردرد نے پریشان کیا۔ ٹکیاں کھا کھا کرمعدہ جواب دے گیا۔ گردوں پر اثرہونے لگا۔جب کمر دردنے شدت اختیارکی توآپریشن کے بغیر کوئی اورچارہ نہ رہا۔ آپریشن کروایاجو خاص کامیاب نہ رہا۔ مجھے گُھٹنے کے درد نے معذور کردیا ۔ میںنے گھٹنہ بدل دیااب چھڑی لیکر ادھراُدھر چلتارہا۔
زلیخا کو وہیل چیئر کواپنا ہمدرد بنانا پڑا یہ اس کے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو کبھی کسی کامحتاج بننا بالکل نہیں چاہا تھا مگر اب اس وہیل چیئر کی محتاج ہوگئی۔ ہم دونوں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا۔ اللہ کا پھربھی شکرادا کرتے تھے۔
ہم دونوں کوگاڑی چلانے سے منع کیا گیا اس کو کمرکاآپریشن ہونے اور مجھے گھنٹہ بدلنے کی وجہ سے ۔
مختصراً زندگی میں جوآرام اور سکون پہلے دیکھا تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔ پھربھی ہم اللہ کے ہی شکرگذار تھے ۔
ایک رات میں انہی خیالات کو لے کرسوگیا کہ کیا آرام تھا اور اب کیا سہنا پڑ رہا ہے ۔
مجھے اپنی کم اور زلیخا کی بہت زیادہ تکلیف اورلاچارگی ستانے لگی مجھ سے دیکھا نہ جاتا تھاکہ زلیخاکیا تھی اور اب کیا بن کر رہ گئی ہے ۔
بہت دیر کے بعدایک گہری نیند آگئی ۔ایک بہت ہی خوبصورت خواب دیکھا۔ میں نے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زلیخا کودیکھا۔ میں نیند میں ہی مسکرارہا تھا۔
پھرجب زلیخا مجھے نیند سے جگانے کے لئے آئی بولی! ’’اٹھو۔ کافی دیر سولئے ‘‘۔ میں ہڑبڑاتاہوا بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔سامنے زلیخاتھی۔ وہیل چیئر پر دُبلی پتلی ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ۔چہرے پرکمزوری کے آثار لئے تھر تھراتے ہاتھوں میں چائے کا کپ لئے جو ٹک ٹک ٹک ٹک کرتا تھا۔ اس نے چائے میز پر رکھی۔ بولی !
’’پیئو۔ٹھنڈی ہورہی ہے۔’’
میں اس کے چہرے کو دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ چہرہ کیاتھا ور اب کیا ہوگیا ہے۔ ابھی میں کیا دیکھ کر جاگا اور اب یہ میرے سامنے کیا ہے ۔ یہ سوچ کر میری آنکھوں سے چند آنسو ٹپک کر گرپڑے ۔ یہ دیکھ کر زلیخا بولی!’’ یہ کیا ہے؟‘‘
’’کیاہوگیا تمہیں‘‘۔ بس یونہی میں نے جواب دیا۔
میں نے دل ہی دل میں کہاآج پتہ چلا کہ آسمان سے گرنا کیا ہوتاہے؟ اور یہ بھی سمجھ آگیا کہ خواب اورحقیقت میں کتنا بڑااور کتنا تھوڑا فرق ہوتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں