مرا حبیب ہی مجھ سے اگر خفا ہوگا 51

مرا حبیب ہی مجھ سے اگر خفا ہوگا

غزل
اعجاز اسد
مرا حبیب ہی مجھ سے اگر خفا ہوگا
فقیرِ عشق ہوں، انجام جانے کیا ہوگا
خود اپنےدل پہ سدا دستکیں دیا کیجئے
کہ زندگی کا نیا در کبھی تو وا ہوگا
یہ بدگمانی تجھے بے قرار کردے گی
ہر ایک دوست پر آخر تجھے شبہ ہوگا
جو ہو سکے تو مرے زخم پر نمک چھڑ کو
کھلے گا پھول کی مانند جب ہرا ہوگا
دُکھی دلوں کا کبھی درد بانٹ کر دیکھو
تمہارے دل کو میسر سکون سا ہوگا
وہ آدمی ہے اُسے آدمی ہی رہنے دو
ذرا یہ سوچ خُدا بن گیا تو کیا ہوگا
امیرِ شہر کی کرنا نہ ہمنوائی اسد
ضمیر تم پہ ملامت کرے تو کیا ہوگا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں