دایمی خوشی کیسے نصیب ہوگی 46

دایمی خوشی کیسے نصیب ہوگی

سبزار رشید بانڈے

خوشی کا جذبہ اور دکھ کا جذبہ اللہ تعالی نے انسان میں پہلے ہی رکھا ہے۔ خوشی اور غم کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم خوشی کی بات کرتے ہیں ۔ تو خوش رہنا اور خوش رکھنا بظاہر بہت مشکل لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو خوش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔
مگر یہ تلاش صرف ہماری سوچ ہے۔اگر ہم اپنے اردگرد کا بغور جائزہ لینے والے ہوں تو ہمیں اپنے اردگرد رہنے والے افراد کے مزاج کا علم ہو گا۔ یوں ہمیں ان کے مزاج سے آگاہی ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ بس شرط ہے کہ ان کے مزاج کے مطابق ہو۔ مثلا میری بچی ایک چاکلیٹ سے خوش ہو جاتی، میری بیوی کی پسند کا کھانا بن جائے وہ خوش ہو جاتی ہیں ، اپنی بیوی کی خدمات کا اعتراف کروں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں، اپنی بہن کو کال کروں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری والدہ مجھے مختلف دعائیں اور وظائف پڑھنے کا کہتی ہیں جب میں ان کو بتاتا ہوں کہ میں نے وہ پڑھی اور ان کو اکسیر پایا وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری بابی بہت سی چیزیں بہت خوبصورت بناتی ہیں، وہ یخنی بہت اچھی بناتی ہیں میں دل کھول کر تعریف کروں وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میرے دوستوں کو میرے وقت میں سے کچھ وقت درکار ہوتا ہے میں ان کو دوں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ الغرض میں نے دیکھا ہے کہ لوگ بہت چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم دوسروں کو خوش کرتے ہیں تو خود بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ خوشی کی شعا ئیں ہوتی ہیں جس پر ڈالی جائیں وہ بھی رونق رونق ہو جاتا اور جہاں سے پھوٹتی ہیں وہ بھی۔ خوشی کے اظہار کے لئے مسکرانا بھی کافی ہوتاہے۔ مسکراہٹ لگتی بھی بھلی ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ آپ کے مسکرانے میں چہرے کے کم مسلز استعمال ہوتے ہیں ، جبکہ غصے یا دکھ کے تاثرات دکھانے کو چہرے کے بہت سے مسلز کھنچتے ہیں اور تکلیف میں ہوتے ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں، ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے” حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ نہیں لگاتے تھے بلکہ تبسم فرماتے تھے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کا اندازہ آپ کے چہرہ انوار سے لگایا کرتے تھے، وہ فرماتے ہیں ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسرور ہوتے تو ان کا چہرہ انور خوشی سے ایسے جگمگا اٹھتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو” ۔
خوش رہنا اور مسکرانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ جب ہم مغموم یا ناخوش ہوتے ہیں تو اس کا اثر ہماری زندگی اور تعلقات پر بھی پڑتا ہے ، کچھ غم وقتی ہوتے ہیں مثلاً کاروبار میں نقصان ،کسی پیارے کی موت،کسی کی بےجا تنقید و اعتراض وغیرہ جبکہ کچھ دکھ مستقل ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حل ہمارے پاس نہیں ، اور کچھ غم ان خواہشات کے بھی ہوتے ہیں جو کہ پوری نہ ہو سکی ہوں۔ خوشی ہماری صحت کے لئے اچھی ہی نہیں بہت ضروری بھی ہے۔خوش رہنے والے لوگوں کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اورایسے لوگ زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔
خوشی لوگوں کے دلوں میں وسعت پیدا کرتی ہے اور تکالیف سے گزرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ دیگر انسانوں سے تعلقات میں بہتری لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جبکہ ناخوشی ہماری صلاحیتوں، ہمارے کام کرنے کے جذبے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ ہمارے اندر زندہ رہنے کی خواہش کو ختم کر دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوشی کیا ہے؟ یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کیا از خود خوش رہنا ممکن ہے ؟
درحقیقت خوشی ایسے خوش کن ذہنی جذبات و کیفیات کا نام ہے جس میں طبیعت میں مثبت اور خوشگوارجذبات جنم لیتے ہوں۔ ماہرین نفسیات خوشی کو چار درجوں یا سطحوں میں تقسیم کرتے ہیں، پہلی سطح وہ ہے جس میں یہ مادی اشیاء سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسری وہ خوشی جو کسی مقابلے میں فاتح ہونے کے نتیجے میں ملتی ہے۔تیسری اچھے کاموں کی وجہ سے اور آخری خوشی جو کامل ہے اندر کی خوشی کہلاتی ہے۔
عارضی خوشی کا حصول آسان ہے جوکہ عام طور پر مادی خواہشات ،نفسیاتی، ذہنی و جسمانی فائدے سے حاصل ہوتی ہے مثلاً بہتر کھانا پکانا یا ڈانس کرنا وغیرہ جو کہ قطعاً وقتی اور عارضی ہے ، جسے محض تسکین کہا جاسکتا ہے۔جبکہ خوشی کی دوسری قسم مستقل خوشی ہے ، جوکہ اطمینان قلب، نیکیاں کرنے ، نفس کے تزکیے،گناہوں سے توبہ کرنے، اور عبادت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے، جوکہ دیرپا اور بعض اوقات تو دائمی ہوتی ہے ، اور ذہنی سکون کے علاوہ آسودگی کا باعث بنتی ہے۔
بلاشبہ خوش مزاج لوگ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور رشتوں کو بہتر اور کامیاب انداز میں نبھاتے ہیں۔ جن لوگوں میں غموں سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے وہ مشکل صورت حال میں اچانک گھبرا جاتے ہیں اور حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسی صورت حال میں ایک لمحے کیلئے رکتے ہیں، چیلنج کی نوعیت اور اس کے حجم کا جائزہ لیتے ہیں ،اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اس کاتقابل کرتے ہیں اورپھر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کا جزوی یا کلی طور پر مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔یہ لوگ یا توپیدائشی طورپر اندر سے مضبوط ہوتے ہیں یا وقت کے ساتھ ساتھ مہارتیں سیکھ چکے ہوتے ہیں۔
خوشی درحقیقت روحانی کیفیت کا نام ہے،کہا جاتا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ روح اگر مطمئن اور پرسکون ہو تو جسم اور دماغ بھی پرسکون اور خوش رہتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے خوش کیوں رہتے ہیں؟ کیونکہ وہ بڑوں کی طرح کینہ اوربغض نہیں پالتے، ابھی لڑے تو اگلے ہی لمحے باہم شیروشکر ہوگئے۔ اگر یہی چیز بڑے بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو وہ خوش رہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر اپنی زندگی گزارے اور اگر زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت اور اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بنالے تو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ صبر،شکر،امید قناعت،وغیرہ پر عمل پیرا ہوکر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول میں خوشی محسوس کرتا ہے۔خالق کائنات مالک حقیقی معبود برحق اللہ جل جلالہ بھی انسان کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں ،اور جب انسان اپنے قول و فعل اور عمل میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو اس پر وہ مطمئن رہتا ہے۔
بددیانتی اور ناانصافی کا ارتکاب انسانوں میں نفرت اور انتقام کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس متاثرہ افراد کی طرف سے معاف کر دینے کا عمل افراد کے درمیان محبت اور احترام کی بنیاد پر اعلیٰ ترین سطح پر تعلقات کو قائم کرتا اور انہیں جلا بخشتا ہے۔ اسی طرح ایثار کے ساتھ ساتھ دوسروں کے درد کو محسوس کرنا اور ان کے ساتھ رحمدلی سے پیش آناجہاں انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرتا ہے وہاں راحت قلب اور حقیقی خوشی کا باعث بنتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دایمی خوشی نصیب فرمییں۔آمین ۔۔
تحریر:سبزار رشید بانڈے ماندوجن شوپیان کشمیر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں