افسانہ:-آخری سہارا  101

 افسانہ:-آخری سہارا 

ولر اردو ادبی فورم کشمیر ……………2022

نوٹ

گزشتہ برسوں کے افسانوی ایونٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ولر ادبی فورم نے اس سال بھی فن افسانہ کو فروغ دینے کے لئے 15مئی2022 سے ’’” افسانہ ایونٹ 2022″ کے نام سے ایک افسانوی نشت شروع کی ہے جو جاری و ساری ہے۔ فورم کے صدر طارق شبنم کے مطابق فورم انتظامیہ نے اس سال کے ایونٹ کیلئے ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کو بطور صدر جبکہ معاون صدر ڈاکٹر فریدہ بیگم تبسم گلبرگہ کرناٹک اور محترم راجہ یوسف صاحب چیف آرگنائزرمقرر کئے ہیں۔ افسانہ ایونٹ 2022 کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے فورم انتظامیہ نے ایس ۔معشوق احمد کو ایونٹ کا ایڑمن منتخب کیا ۔
فورم کی طرف سے ہفتہ روزہ شہربین کے مدیر محترم شکیل آزاد صاحب ، ہفتہ روزہ ندائے کشمیر کے مدیر معراج الدین فراز صاحب اور روزنامہ نیا نظریہ کے مدیر(ادبی صفحہ) ڈاکٹر غلام نبی کمار صاحب کا بطور میڈیا پارٹنرس استقبال کیا جاتا ہے۔

 افسانہ:-آخری سہارا

  افسانہ نگار :- چودھری قاضی نثارچہیچی_ شوپیان    …………….بینر _ عمران یوسف

قسطہ:.8

اکیس دسمبر کا دن تھا۔چیلےکلان اپنی جوانی میں مخمور تھا۔ کڑاکے کی سردی اور آسمان پرچھایے ہوے کالے بادل برف کی آمد کابڑی بے صبری سے استقبال کے لیے انتظار کر رہیے تھے۔لوگ سردی کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں آگ کی بخاری کر اردگرد  بڑے ہی اطمینان سے بیٹھے تھے.کس کا بھی من نہیں کرتا تھاکہ وہ ایسی کڑاکے والی سردی میں باہر نکلے۔
          رات کی ہلکی ہلکی برف باری کی وجہ سے سڑک پر پھسلن تھی۔نہ کہیں کوی گاڈی نہ کوی رکشہ۔اس پھسلن نے توگاڈیوں کی آمد ورفت کا پورا نظام ہی ٹپ کر کے رکھ دیا تھا. لوگ مجبورً  پیدل ہی سڑک پر پھسل کر گرتے اُٹھتے اپنی منزل کی اور بڑھتے جارہے تھے۔میں بھی  بازار  میں کچھ گھریلوچیزیں خردیدنے کے لیےجارہا تھا۔کچھ ہی فیصلہ کی دُوری پرمیرے آگے ایک بُزرگ جو ایک ہاتھ میں عاصّہ اور دوسرے ہاتھ میں کمّبل لیےہوےڈگمگاتاآگے بڑھ رہا تھا.
میں دیکھ کرحیران ہوگیا۔اتنی قہر والی برف اور سردی یہ بُزرگ بے چارہ نہ جانے کہاں جارہا ھے؟
کیا یہ گھر میں سے کسی اور نہیں بیجھ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔،؟
بار بار میرے ذہین میں یہ سوالات رقصّ کر رہیے تھے۔۔۔۔۔۔،!!!
         جُوں ہی میں اس کے قریب پہنچااُس نے سردی سے کانپتے ہوے نگاہیں اُٹھاکرمیری طرف دیکھ کر انکساری  سے کہا۔بیٹے کہاں جارہیے ہو۔۔۔؟
میں نے کہا ” بابا میں بازار جا رہا ہوں“ آپ کہاں جارہے ہواُس نے کہا ”میں ہسپتال جا رہا ہوں“
اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوے مُجھے کہا؟
کیا آپ میری کمّبل وہاں تک اٹھاسکتے ہو؟
میں تھک چکا ہوں،۔۔۔۔؟
یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں سے آنسوں کے گرنے ہی والےتھے.میں نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے انگلیوں سے اس کے آنسوں پوچھتے ہوے کہا۔بابا تم کیوں دیدہ نم ہو گیےہو۔۔۔۔؟
 اخر وجہ کیا ھے۔۔۔۔۔۔؟
اُس نے کہا:- بیٹا کچھ نہیں!
  میں نے کہا:- مُجھے بھی بتایے نا۔۔۔۔۔۔۔؟
 اس برف کڑاکے والی سردی میں ہسپتال؟
خیریت ہی تو ھے نا،تمہارے ساتھ اور کون ھے۔
میں نے کمّبل میں لیتے ہوے کہا۔
اتنی سردی میں تُوبہ تُوبہ تُوبہ!
لایے ہاتھ میرے ہاتھ میں دیجھے کہیں گر جاوگے بہت پھسلن ھے۔۔۔۔؟
اس ہاتھ کاپکڑ کر میں نے راستے میں چلتے چلتےیک بعد دگر سوالات پوچھنےاور میرے کافی اصرار کرنے پر اس نے لمّبی سانس لی!
اورکہا کیا کرو گےمیری آپ بیتی سن کر؟
کوی ہل نہیں میری اس آپ بیتی کا۔۔۔۔،
میں نے کہا:-میں سسُنا چاہتا ہوں۔آپ اس قدر کیوں پیشمان ہو۔آخر وجہ کیا ھے۔۔۔۔؟
اور میرے پاپا کہتے تھے، کبھی کبھی بُزرگوں کی باتیں سن لیا کرو۔ اس سے اُن کے مَن کا بُوجھ ہلکا،اور ان کو ایک سہارا سا مل جاتا ھے۔۔۔۔۔،
ہاں بیٹے سچ کہا ھےتیرے باپ نے۔لیکن آج کے اس دُور میں بُزرگوں کی سنتا ہی کون ھے، بُزرگوں کو بُوجھ سمجھا جاتا ھے.جوماں باپ بچّوں کوپڑھانے لکھانے میں اپنی جوانی سکھ وآرام، یہاں تک دین ودنیا برباد کر دیتے ہیں۔وہی بچےّباتیں کہاں، اپنے ساتھ رکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔۔۔۔۔،
بات بات پر غصّہ کرتے ہیں،کوستے ہیں۔۔۔۔،
یہاں تک کہ ناسمجھی اور کم عقلی کے طعنے بھی دے دیتے ہیں ۔۔۔۔،
میرے بیٹے میرےساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا.کیا سُناوں اپنی آپ بیّتی۔میرے اللّلہﷻنے مُجھ دو بیٹے دیےمُفلسی اور غربت کی حالت میں۔ میں نے لوگوں کے ہاں مزدوری اور لکڑیاں بھیچ بھیچ کر بڑے ہی جتن سے اُنکی پرورش کی،اُن کو پڑھا لکھا کر بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کروایا،اُن کی زندگی بناتے بناتے میں نےاپنی زندگی داٶپر لگادی۔دن کا آرام اور راتوں کا سکون تک کھودیا۔تا کہ ان کی زندگی سنہور جاے۔اور میں بھی غریبی کے اس پھندے سے چھٹکارہ پا کر راحت کی سانس لےسکوں۔بڑے خواب دیکھےتھے میں نے،لیکن قسمت میں لکھایےکو کیا کرے کوٸ ایک نے شادی کرتے ہی معمّولی سی بات کا بہانہ بناکرھم سےدُوری اختیار کر لی.اب وہ ہم سے دُور شہر میں اپنی بیوی بچّوں کے ساتھ پچاس لاکھ والے مکان میں رہ رہا ھےاوردس پندرہ لاکھ کی والی گاڑی اسکی سواری ھے۔ٹھاٹ بھاٹ اور مزے سے زندگی بسر کرہا ھے۔۔۔۔۔،
دوسرے نےاسی سال ہمیں بنا بتایے بُزرگی کی اس حالت میں ہمیں چھوڑ کر ڈاکٹری کرنے والیت چلا گیا۔۔۔۔۔۔،
        اب میں اپنی گھر والی یعنی” بیوی“ کے ساتھ اُسی ٹوٹے ہوے بُوسیدہ مکان میں مصّیبت کے لمحہات کاٹ رہاہوں.وہ مکان جس میں کبھی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔خُوشیاں ہوا کرتی تھیں.اب شام ہوتے ہی اُسکی دیواریں ہم کو کھانے لگتی ہیں۔ہم دونوں میّاں بیوی مسکینوں کی طرح ایک کونے پڑے رہتے ہیں۔دم گھٹتا ھے ہمارا وہاں،اور اُنکی ایسی لیاقت اب وہ کبھی فون کرکے حال چال بھی نہیں پُوچھتے۔کیا فایدہ ھےایسی اولاد کا۔کیا بگاڑہ تھامیں نےاُن کا،کیا یہی بُرا کیا کہ ان کو پڑھا لکھاکر بڑے بڑے عہدّوں پہ تعینات کروایا
 تم ہی بتاوکیا یہی قصّور تھا میرا۔۔۔۔۔؟
کاش اگرایک بیٹی ہی ہوتی وہ کبھی اس حالت میں ہمیں چھوڑ کر نہ جاتی؟۔۔۔۔۔۔،۔۔۔؟
       اب جس کے سہارے میں زندگی کا دن دن گزار  رہا تھا.وہ بھی کل رات اچانک ان ہی بد بختوں کی پریشانی  لے لے کر بیمّار ہوگی.اب ہسپتال میں زندگی اور مُوت کی کشمکش میں ھے۔ یہ کمّبل اُسی کے لیے لے کر جا رہا ہوں۔اور
 ہمارے سرکاری ہسپتالوں کا یہ حال ھے یہاں تو اتنی ٹھنڈ ھے اچھی صحیت والا بندہ بھی ٹھنڈ کی زد میں آکر مر سکتا ھیں پھر مریض بیچارے تو پہلے ہی لاغراورکمّزور ہوتے ہیں
 اس بیچاری کوٹھنڈ لگتی ھوگی.خُدا نخواستہ اگراُس کو کچھ ہوگیاپھر کون بنے گامیرا۔۔۔۔۔؟
کون میرے ساتھ باتیں کر کے میرے اکیلے پن کو دور کرے گا۔۔۔۔؟
 کون کھلایے گا پکا کر مُجھے۔۔۔۔۔؟
یہی باتیں کرتے کرتے پتا ہی نہیں چلا ہم ہسپتال کے سہن تک پہنچ گے.وہاں پہنچ کر مُجھ سے رہا نہیں گیا۔میں اُس بوڑھی امّاں کی عیادت کرنے کےلیے ہسپتال میں چلاگیاواقعی وہ موت اور زندگی کی کشمّکش میں تھی۔وہ حسرت بھری نگاہوں سے مُجھ تک رہی تھی!کچھ کہنا چاہتی تھی ؟لیکن کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی.کیونکہ اس کوآکیسجن کی پیپ(pipe) لگای ہوی تھی.
بابے نے میرے سے ہاتھ کمّبل لے کر اس پر ڈالی۔اُس کی حالت دیکھ کر بابے کی آنکھیں نم ہوگیں،میں نے اُسے دلاسا دیتے ہوے کنٹین میں لے کر چای پلای۔۔۔،اور ہمت دیتے کہاان شاء اللّہ بابا امّاں ٹھیک ہوجاے گی۔توں فکر نہ لے۔۔۔۔۔۔،!
ہمت اور حوصلہ رکھ۔۔۔۔۔!
لیکن بابا بےچارہ اب ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔۔۔،
ہارکر چور چور ہو چکا تھا۔۔۔،
جُوں ہی میں وہاں سے نکلا اُسکی آنکھیں نم ہوگیں۔ یہ دیکھ کر میرا کلیّجہ چھلنی ہوگیا۔
کیسی آولاد ھے جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔۔۔۔،؟
جس ماں باپ نے ان کو پڑھا لکھا کر بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کروایا وہی اولاد آج اُن کوبےبسی کی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گی۔۔۔۔؟
بد قمتی سےمیرے ماں باپ میرے بچپن میں ہی گزر چکے تھے۔۔۔۔،
کاش وہ زندہ ہوتے میں تو کبھی ایسا نہ کرتا
مجھے تو اُن کے قدم چُھونے کا موقعہ ہی نصیب نہیں ہوا۔۔۔۔،
 کاش وہ زندہ ہوتے میں تو کبھی اُن سےالگ نہ ہوتا۔۔۔۔،
اب بار بار یہی خیال میرے ذہین اُمڈ اُمڈکر آرہا ہیں ۔۔۔۔۔،
ہاے کیا کرے گابےچارہ بابا۔۔۔؟
کیا بیّتے گی اس پر۔۔۔۔،
کیا ہوگااُس بے چارے کا۔۔۔؟
کون بنے گا اب اُس کا آخری سہارا۔۔۔؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں