جموں وکشمیر کا ہر ایک طبقہ مصائب و مشکلات سے دوچار 53

حکومت عوام کے مان و جان کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام

نارملسی کے تمام دعوے سراب ثابت، پنڈت برادی عدم تحفظ کا شکار ،نوکریاں چھوڑنے کیلئے بھی تیار ـ/ڈاکٹر فاروق

سرینگر /14مئی / این این این اہل کشمیر نے مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی مشعل کو صدیوں تک فیروزاں رکھنے کیلئے بیش بہا قربانیاں پیش ہیں اور آج بھی کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے اقلیتی طبقہ کیساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب پورے ملک میں مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اُس وقت صرف کشمیر ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور یہاں کے اکثریتی طبقے نے اقلیتوں کے مال و جان کے تحفظ کو یقینی بنایا اور ہر کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں مل جُل کر معمول کی زندگی گذارتے رہے۔ندا نیوز نیٹ ورک کے مطابق ان باتوں کا اظہار صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ (رکن پارلیمان) نے آج اپنی رہائش گاہ پر پنڈتوں کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1947میں جب ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات جاری تھے اور چاروں طرف قتل و غارت کا سماں تھا آنجہانی گاندھی جی کو صرف اور صرف کشمیر میں روشنی کی کرن نظر آئی تھی۔ نیشنل کانفرنس اقلیتی سیل کے نائب صدر شری امت کول کی صدارت میں آئے وفد نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو تفصیلاً اس بات کی جانکاری دی کہ کس طرح سے پُرامن احتجاج کررہے پنڈتوں کیخلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا اور اس دوران بچوں اور خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ نئی دلی جموں وکشمیر کی زمینی حقیقت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی حکمران چاہتے ہیں کہ یہاں کے اصل حقائق ملک کے عوام تک پہنچ پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ راہل بھٹ کی ہلاکت کیخلاف پُرامن احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جموں وکشمیر میں نارملسی اور حالات کی بہتری کے بلند بانگ کرتے رہتے ہیں لیکن جب زمینی صورتحال پر نظر ڈالی جاتی ہے تو حالات ان دعوئوں کے عین برعکس نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ راہل بھٹ کا ایک تحصیل آفس میں گھس کر قتل کرنا حکمرانوں کے تمام دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ لوگ سیاحوں اور یاتریوں کی آمد کو نارملسی کا پیمانہ بنا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 5اگست2019کے بعد یہاں کے حالات انتہائی خراب ہوگئے ہیں۔ اگر یہاں نارملسی ہوتی تو آئے روز انکائونٹر، مار دھاڑ، ٹارگٹ کلنگ، تلاشیاں، بنکر اور فوج و فورسز کی اتنی بھی تعداد میں موجودگی نہ ہوتی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ 5اگست2019سے پہلے بھی یہاں پنڈت قیام پذیر تھے اور تمام شعبوں میں نوکریاں کرتے تھے اور امن اور چین کی زندگی گزار رہے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ یہ لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی نوکریاں چھوڑنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ٹارگٹ کلنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ایسے واقعات کو ناقابل قبول قرار دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنڈتوں کشمیری سماج کا ایک اہم حصہ ہے اور ان کے بغیر کشمیر ادھورا ہے، بدقسمتی سے 1990میں اُس وقت کے گورنر جگموہن نے ایک سازش کے تحت انہیں یہاں سے نکالا اور ان سے کہا گیاآپ کو چند ماہ کے بعد واپس لایا جائے گا لیکن آج 32سال ہونے کے بعدیہ لوگ اپنے گھروں اور آبائی وطن سے دور ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پنڈتوں کی سلامتی، سیکورٹی اور تحفظ کیلئے پی اے جی ڈی کا وفد جلد ہی لیفٹنٹ گورنر سے ملاقی ہوگا ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنڈت ملازمین کو فی الحال شہر کے فاتر میں تعینات کیا جائے اور انہیں وہ رہائشی سہولیات فراہم کیں جائیں جو ماضی میں جموں سے تعلق رکھنے والے سکریٹریٹ ملازمین کو دی جاتی تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں