48

تشدد کے حامی لوگوں نے جہاں لسہ کول اور پریم ناتھ کو مارا

وہی مولانا محمد فاروق، مولوی مسعودی اور مشیر الحق کو بھی نہیں بخشا/ تاریگامی
سری نگر،18 مارچ // سی پی آئی ایم کے سینئر لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے پنڈتوں کی وادی سے مائیگریشن کو ایک المناک واقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ تشدد حامی قوتوں نے یہاں تمام مذاہب وملت سے وابستہ لوگوں کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ جہاں کشمیر میں پنڈت برادری کے با اثر شخصیات کو مارا گیا وہیں مسلمانوں اور سکھ برادری ک بڑی شخصیتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے سری نگر میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب پنڈتوں کی مائیگریشن ہے اور اس سے کشمیری شناخت کو بھی آنچ پہنچی۔اْن کے مطابق ہمارے سماج کے ایک حصے کو خوف اور ڈر کے مارے وادی چھوڑنا پڑا جو ایک المیہ سے کم نہیں.یوسف تاریگامی نے مزید کہا کہ مرحوم مولانا محمد فاروق کو کسی نے مارا اور اْن کے نماز جنازہ میں شامل درجنوں لوگوں پر گولیاں کس نے چلائیں؟ اْن کا کیا قصور تھا۔انہوں نے بتایا کہ چھٹی سنگھ پورہ میں سکھ برادری کے لوگوں کو کس نے مارا ؟ یہ ہماری تصویر کا دوسرا رخ ہے لیکن اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں کر رہا ہے۔انہوں نے کشمیر فائلز فلم بنانے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ ان آنسووں کا کون سے رنگ ہے۔اْن کے مطابق سچائی یہ بھی ہے کہ تشدد کے حامی قوتوں نے یہ نہیں دیکھا کہ لوگ کس ملت، مذہب اور عقیدے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔مسٹر تاریگامی نے بتایا کہ تشدد کے حامی قوتوں نے جہاں لسہ کول کو مارا وہی پر محمد شعبان وکیل کو بھی گولیوں سے بوندھ کر رکھ دیا گیا۔اْنہوں نے مزید بتایا کہ بزرگ رہنما مولانا مسعودی جو بستر مرگ پر تھے اْن کو بھی نہیں بخشا گیا۔ان کے مطابق جہاں جنرل منیجر ایچ ایم ٹی کھیرا صاحب کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا وہی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر مشیر الحق صاحب اور اْن کے پرائیوٹ سیکریٹری عبدالغنی کو بھی نہیں بخشا گیا۔انہوں نے کہاکہ کیا یہ حقیقت نہیں جن کا سیاست کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں تھا اْنہیں بھی قتل کیا گیا۔اننت ناگ میں پریم ناتھ صاحب کا قتل کیا گیا وہاں غلام محمد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ میرا سوال اْن قوتوں سے جو آج بھی خونِ کشمیر کا سودا کر رہے ہیں ، مختلف بازاروں میں اس کو بیچ رہے ہیں ، بس کروں ، کون مرا ، کس نے مارا جو بھی مرا میرا رشتہ ہی مرا۔تاریگامی نے جذباتی انداز میں کہا کہ جہاں وندہامہ کا المناک سانحہ پیش آیا ، وہی پر گاو کدل سانحہ کو بھولا نہیں جاسکتا ،جہاں گاندربل کے علاوہ بڈگام میں کچھ اقلیتوں کو مارا گیا وہی کپواڑہ میں ایک بس بانڈی پورہ سے آرہی تھی اْس میں سوار مسافروں کو کس نے چن چن کر مارا۔ جہاں سوپور کی ایک معصوم پنڈت بہن کی عصمت فروشی کے بعد اْس کا قتل کیا گیا ، وہی کنن پورشپورہ کا سانحہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس ، کانگریس اور پی ڈی پی سے تعلق رکھنے والے ممبران اور کارکنوں کو کس نے مارا؟تاریگامی کا مزید کہنا تھا کہ سب سے پہلے المناک موت سری نگر سے تعلق رکھنے والے نیشنل کانفرنس کے کارکن محمد یوسف حلوائی کی ہوئی جب انتہا پسندوں نے پندرہ اگست پر بلیک آوٹ کی کال دی تھی اْس کی مخالفت میں این سی کارکن کو مارا گیا۔اْنہوں نے بتایا کہ سیاسی معاملات کی خاطر خونِ آدم کو پیش کیا جائے ، ملک اور عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔مسٹر تاریگامی نے ملک کے با اثر اور اہل اقتدار لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ کشمیر ایک زمین کا ٹکڑا نہیں، کشمیر تہذیب کا نام ہے، ہماری پانچ ہزار سال کی ایک شاندار تاریخ ہے جس سے کوئی مٹانہیں سکتا۔انہوں نے بتایا کہ ہماری شناخت مٹ نہیں سکتی ہاں اتنا ضرور ہے کہ تہذیب کو دھچکا لگ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں