افسانہ۔۔۔’’ پِیروں کے پِیر ‘‘ 97

کشمیر ۔۔۔ تیری میری کہانی ہے

رشید پروین ؔسوپور
( قسط۱۶ )

راجوری،،، کشمیر کے مغربی گوشے کی جانب دریا کے دائیں کنارے پر بلندی پر واقع ہے ، سطح سمندر سے ۳۰۹۴ فٹ کی بلندی پر ہے اور سرینگر سے اس کی مسافت ۱۵۷ کلو میٹر ہے جو اگلے وقتوں میں ۹۷ میل کہلاتی تھی ،، مہاراجہ گلاب سنگھ نے اس کا نام رام پور کیا تھا لیکن اس سے آج بھی یہاں کی مقامی زباں میں راجور ہی کہتے ہیں ، ، قدیم زمانے سے وہاں کے اپنے راجاؤں کا پایہ تخت رہا ہے ، ان راجاؤں نے سلطان زین العابدین کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر صوبہ کشمیر کی اطاعت کی تھی ، آج بھی کشمیر ہی کا حصہ ہے ، بانہال،، سرینگر کے جنوب کی طرف سرینگر جموں راستے میں پہلا پڑاؤ یہی آتا ہے ، ۱۰۱ کلومیٹر کے فاصلے پر ، ۵۵۸۰ فٹ کی بلندی پر واقع ہے ، مسلموں کے ساتھ ساتھ تھوڈی سی ہندو آبادی بھی ہے ، زباں کشمیری ہے اور کلچر بھی لگ بھگ کشمیرکے جیسا ہی ہے ، شروع سے کشمیر میں شامل رہا ہے ، ،، کُھل ،، بانہال کے مغرب میں پہاڈوں کے درمیان ایک پرگنہ یا ضلع ہے ،، زیادہ تر لوگ ڈوگرے ہیں ، تھوڈے سے مسلماں بھی یہاں رہتے ہیں ، تاریخ حسن میں درج ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے عہد سے پہلے یہاں یہ لوگ ہندو مسلما ں آ پسمیں شادیاں بھی کرتے تھے لیکن گلاب سنگھ نے اس پر پابندی عائد کی ،،،،،،،مرو واڈون کشمیر کے دو دروں کے درمیان جنوب مشرقی گوشے میں ایک پرگنہ ( ضلع) ہے ،یہ کشمیر یعنی سرینگر سے ۱۵۴ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ہمیشہ کشمیر میں رہا ہے یہاں کی آبادی مسلم ہے اور یہ سبھی کشمیری بولتے ہیں ، کشتواڈ ،،کشمیر کے جنوب میں مرو کے راستے سے سرینگر سے ۱۵۵ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک درے میں واقع ہے ، سطح سمندر سے ۵۴۵۰ فٹ کی بلندی پر واقع ہے ،آب و ہوا اچھی ہے ، یہاں کے پھل بھی پسندیدہ اور مزے دار ہوتے ہیں ، برفباری بھی کم ہوتی ہے ، یہاں کے اصلی باشندے ٹھکر گدی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور زمانہ قدیم سے ہی کشتواڈ آباد تھا کشمیر کے بہت سارے لوگ زیادہ تر شال با ف یہاں کام کرتے ہیں ، سب سے مشہور بات جو کشتواڈ سے متعلق ہے وہ یہ دلچسپ بات ہے کہ کشمیر کے سبھی لوگ یہاں جانے سے یا یہاں آنے سے ڈ رتے تھے ، اور کشتواڈ کانام سن کر ہی، دم دباکر بھاگ جاتے تھے ، در اصل یہاں کی عورتوں کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ عورتیں جادو ٹونا کرتی ہیں اور اس فن میں انہیں زبردست مہارت ہے ، ان عورتوں کو کشمیری زباں میں (ڈٔان ) کہتے تھے اور(ڈٓٓان)کے لفظ سے ہی کشمیری مائیں اپنے بچو ں کو سلانے ، کھلانے اور چپ کرانے کے لئے اس لفظ کااستعمال کرتی تھیں ،، ہمارے بچپن تک بھی یہی سلسلہ جاری تھا کیونکہ اکثر و بیشتر ہماری مائیں ہم سے کہتی تھیں کہ ،، ڈآٓن آکر جادو ٹونا کرے گی یا لے جائے گی ،نئے زمانے میں ،( گبر )آئے گااس کا شاید متبادل کہا جاسکتا ہے ، اب جہاں تک کشتواڈ کے جادو ٹونے یا کالے جادو کا تعلق ہے تو میں نے کئی بار اس سلسلے میں کئی ایسے اشخاص سے ملاقات کی جو کشتواڈ میں رہے ، ان کے مطابق اب وہاں ایسا کچھ نہیں، لیکن پہلے کچھ رہا ضرور ہے ،،، بہر حال یہاں کی عورتیں سحراور جادو ٹونا میں بڑی شہرت کی حامل تھیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان عملیات کی روک تھا م میں کافی یوگدان دیا ہے ، ۹۰۰ ھ میں سید شاہ فرید جو ایک روشن دل فقیر اور بلند پایہ صوفی و بزرگ تھے ،نے کشتواڈ کے راجہ کو مسلماں کر لیا ،کشمیر میں ہی شامل رہا ہے ، اور آج بھی کشمیر کا ہی حصہ ہے ،، کشمیر کی جغرافیائی حیثیت آسانی سے سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ اکبر جلالادین کی وضع کردہ تقسیم پر ایک نظر ڈالی جائے ، اس نے اپنے ہندوستان کے انیس صوبے ، کر دئے تھے ، اور کشمیر اس دو ر کا انیسواں صوبہ تھا ، جس کی حدود یہ ہیں ، صوبہ کشمیر ، اٹھاون ضلعوں یا پرگنوں پر مشتمل تھا ،، ، لداخ ، اسکردو ، کنجو ، نگری حصورہ اور گلگت،، یہ چھ ضلعے مشرقی اور شمالی گوشے کی جانب ہیں ،، آٹھ ضلعے شمال مغربی گوشے میں ،دومیان، داردو، دمتور ، پکھلی، کلاک، کاغان ، دراوہ ،اور کرناہ ،، چھ ضلعے مغرب اور جنوب کے گوشے کی جانب ہیں ، پونچھ ، راجوری ، نوشہرہ ، کھل ، نانہال اور مروؤڈون، ،،خاص کشمیر کے ۳۸ ضلعے جن میں ایک سرینگر بھی تھا ، ،( آئین اکبری جلد ۲) اکبر بادشاہ کے زمانے میں جو جمع بندی آصف خان نے دفتر اعلیٰ میں پیش کی اس میں ملک کشمیر کے اڈتیس ہی پرگنے تھے ، مشہور شہر و قصبے ،، ان پرگنوں یا ضلعوں کی تعداد مختلف اوقات میں مختلف رہی ہے ، ، کبھی انتظام بدل گیا تو صرف ۳۴ پرگنوں میں بانٹا گیا ، ،پچھلی کسی قسط میں یہ بات آچکی ہے کہ ۲۰۶۵ ق ،م ، میں راجہ سندیمان کی موت کے بعد اس کے دو لڑکوں مرہن دیو ، اور کامن دیو میں سلطنت پر جھگڑا کھڑا کیا تو امرا اور وزررا نے مداخلت کرکے سلطنت کے دو حصے کئے ، حصہ بالا یعنی جنوبی کشمیر۔ مرہن دیو ۔کو جس کا نام مراج پڑا اور شمالی حصہ کامن دیو کو ملا جس کا نام کمراج ہوا اور اب تک بھی ان دو حصوںکو ا ن ہی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ، سندیمت نگر اسی کامن دیو کا دارالخلافہ تھا جو مکمل پانی میں ڈوب گیا اور یہ وہی جگہ ہے جہاں آج ( جھیل ولر ) ہے کئی بار ان دو ضلعوں کے نام سے ہی بہت سارے بادشاہوں نے اپنے انتظامات چلائے ہیں اور سرینگر ان دو ضلعوں کے بیچ میں ہے ، قصبہ ویری ناگ،،، سرینگر سے مراج کی طرف شاہ آباد پرگنہ (ضلع ) میں ۸۰ کلو میٹر کے فاصلے پر بانہال پہاڈ کے دامن میں کشمیری سرحد کی ابتدا میں واقع ہے ، ، بادشاہوں خصو صاً مغلوں کی گذر گاہ بھی رہی ہے ، اس لئے یہاں شاہی باغات بھی ہیں اور بادشاہوں کے مستقر بھی رہے ہیں ،،، قصبہ ڈورو ،،، ویر ناگ سے نیچے شاہ آباد کے بیچ میں ایک خوبصورت اور دلکش قصبہ ہے ، دیوہ سر ، شاہ آباد اور برنگ کے لئے تجارتی مرکز ہے ، کشمیر کامشہور رومانوی شاعر رسول میر بھی اسی شہباز ڈورو کا تھا ، ،،، قصبہ اننت ناگ یا اسلام آباد ،،،، ظاہر ہے کہ اس قصبے کا پرانا نام اننت ناگ یعنی (بے شمار چشموں کی آماجگاہ )ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ بھی ان ہی چشموں کا موجود ہونا رہا ہوگا ، یہ قصبہ سرینگر سے ۵۵ کلو میٹر کے فاصلے پر علاقہ مراج ہی میں پڑتا ہے ۔ عالمگیر بادشاہ کو یہ قصبہ پسند آیا اور اس کے صوبیدار اسلام خان نے اس سے ترقی دے کر اسلام آباد نام دیا ، مہاراجہ گلاب سنگھ نے اس سے پھر قصبہ اننت ناگ میں بدل دیا لیکن اکثر و بیشتر کشمیر ی لوگ اس سے اسلام آباد ہی کے نام سے پہچانتے ہیں ، علاقہ مراج کا دارلخلافہ بھی یہی ہے ، قصبہ بیج بہاڈہ ،، قصبہ اسلام آباد سے لگ بھگ ۷ کلو میٹر کی دوری پر دریائے بِہت ( جہلم )کے مغربی کنارے پر آباد ہے ۔ بہت قدیمی اور تاریخی قصبہ ہے ، ،، بیج بہاڈہ ہندؤں کے لئے مقدس زمین ہے ان کا اعتقاد ہے کہ ۔ژکہ در سے سدا شیو کی جگہ چند یار تک یہ زمین کاشی سے ایک دانہ بڑھ کر ہے ، قدیم زمانے میں راجہ وزیانند ( راج ترنگنی ،مصرعہ ۶۲ ۱۰۶ ق م ) نے یہاں وزیہ برار، نام کا ایک خوبصورت شہر بسایا تھا ، ،اب یہ قصبوں میں شمار ہوتا ہے وزیہ برار ہی بیجبہارہ کہلاتا ہے ۔۔ قصبہ پانپور ،،،،،راجہ جیا پیڈ کے زمانے میں اس کے وزیر پدم نے سرینگر سے مشرق کی جانب ۱۶ کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے بِہت ( جہلم )کے کنارے پر پدمان پور کے نام پر یہ گاؤں آباد کیا تھا( پدما پور راج ترنگنی ) یہی جگہ زعفران کی پیداوار کے لئے ساری دنیا میں مشہور و معروف ہے ، اور انہی کھیتوں میں کہیں یوف شاہ چک جو چک خاندان کا بادشاہ تھا اور زون( حبہ خاتون)کی ملاقات بھی ہوئی تھی ، ، مغل بادشاہوں نے اس گاؤں کو اپنے دور میں کافی وسعت دی ، اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کا نام پانپور ہوا ہوگا ، قصبہ شوپیاں ،،، سرینگر کے جنوب میں ۴۸ کلو میٹر کے فاصلے پر پرگنہ باٹھو میں ایک پرانا قصبہ ہے ، کشمیر کی ایک بڑی تجارتی منڈی ہے اور فروٹ انڈسٹری کی وجہ سے بھی کافی معروف ہے ، حالیہ دور میں بہت زیادہ میڈیا میں آتا رہا ہے ، نیلوفر۔ آسیہ، عصمت دری اور قتل کیس بھی اسی قصبے میں ہوا تھا جو انٹرنیشنل میڈیا میں توجہ کا مرکز بنا تھا ،اور یہ واقع عمر عبداللہ کے دور میں ہوا تھا جب وہ پہلی بار چیف منسٹر کے پد پر بیٹھا تھا ، قصبہ چرار ،،ساری دنیا میں اس قصبے کا نام جانا پہچانا ہے کیونکہ اسی قصبے میں مشہور نند ریشی شیخ نور الدین نو رانی ؒ کا آستانہ عالیہ ہے جہاں جموں و کشمیر کے علاوہ دوردراز ممالک سے بھی عقیدت مند آیا کرتے ہیں ،( ، شیخ کی سر گذشت آگے اپنے وقت پر آئے گی )یہ سرینگر سے جنوب کی طرف ۱۸ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اسی ریشی کی وجہ سے اس قصبے کی رونق روز بروز بڑھتی رہتی ہے ،، قصبہ پٹن ،،، سرینگر سے مغرب کی جانب ۲۸ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ، آپ پہلے ہی پڑھ چکے ہیں کہ اس قصبے کو راجہ شنکر ورما نے ۸۸۳؁ء میں آباد کیا تھا (راج ترنگنی )یہاں پر مشہور مانو منٹس ،(مندر )شنکر ورما نے بنوائے تھے کیونکہ یہ اس کا دارالخلافی بھی تھا جس کا نام شنکرا پٹنا تھا ، قصبہ سوپور،،،،، سرینگر سے ۵۰ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال میں کامراج میں واقع ہے ،اس کے درمیان سے دریائے بہت ، (جہلم ) بہتا ہے اور سوپور اس کے دو کناروں پر آباد ایک تاریخی قصبہ ہے، کشمیر کے سب قصبوں سے بڑا ، تجارتی اور فروٹ منڈی کی وجہ سے اس سے ایپل ٹاون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، ( سویہ )کا بسایا ہوا شہر ہے جو اونتی ورمن کا وزیر تھا ، اس کی کہانی آپ پہلے ہی پڑھ چکے ہیں سوپور کئی لحاظ سے بہت ہی مشہور قصبہ ہے ، حضرت میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ دریا کے ایک کنارے پر تو دوسرے کنارے پر ہندؤں کا بڑا مندر بھی ہے ، ، کئی مورخ لکھتے ہیں دریائے جہلم نے کبھی شاردا پور ،،کے نالے میں سے گذر گاہ بنالی تھی جس سے زیرک و زیر سویہ نے شارداپور کے مقام پر (شادی پورہ )پانی کو دونوں طرف کے ساحلوں کے ذریعہ سے بند کرکے جھیل اولر کی طرف جاری کیا اور جگہ جگہ بندھ باندھ کر وسیع زمینیں تیار کرلیں جنہیں برہمنوں کو دان کیا ، تب سے دریائے جہلم جھیل ولر کے بیچ میں سے بہتا ہوا بارہمولہ سے مظفر آباد کے سفر پر روانہ ہوتا ہے ،، (تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ ( سویہ )اس عورت کا نام تھا جس سے ایک نو زائیندہ بچہ کہیں ٹوکری میں ملا تھا ، اس عورت نے اس بچے کی پرورش کی اور اسی عورت کے نام پر بچے کا نام بھی سویہ ۔ہی ہوگیا ، یہ بات بہت کم کشمیری لوگ بھی جانتے ہیں )ماخذ ۔۔ راج ترنگنی ،، ترجمہ ،،ستائن ،،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں