غــــــــزل
اعجاز اسد
کھویا کھویا تیرے جہان میں ہے
لمحہ لمحہ جو میرے دھیان میں ہے
یوں ہی چلتی نہیں مری کشتی
وہ ہوا بن کے بادبان میں ہیں
اُس کو چھوتے خیال ہی نہ رہا
فاصلہ کتنا درمیان میں ہے
اب قلم بن کے تجھ سے بولے گا
یہ جو لُکنت مری زبان میں ہے
جس کو ہندوستان کہتے ہیں
وہ مرے جسم میری جان میں ہے
ہے زمیں اُس کی آخری منزل
ابھی شہرت کے آسمان میں ہے