غــــــــزل
پرویز مانوس
وحشتوں کی شکل میں یہ استعاروں کا عذاب
کس نے تحفے میں دیا جلتے چناروں کا عذاب
کرب کا احساس اُس سے پوچھئے جس نے یہاں
جاگتی آنکھوں سے دیکھا ماہ پاروں کا عذاب
جھڑ گئے اُمید کے گُل زندگی کی شاخ سے
موسم گُل نے دکھایا وہ بہاروں کا عذاب
زخم لاکھوں جھیل کر پھر بھی سبھی خاموش ہیں
کا ش ہم محسو س کر تے د ل فگاروں کا عذاب
صوفیوں کی سرزمیں سے بیچ کر ہر اک گلاب
ہم نے تو خودہی خریدا ہے یہ خاروں کا عذاب
کس میں جُرات ہے کہ جو کھولے زباں اُن کے خلاف
دیکھتا ہے جب کہ عالم دل ازارو کا عذاب
سُرخ پانی پر اُڑانیں کیا بھریں مُرغابیاں
دیکھتی رہتی تھیں ہر دن وہ شکاروں کا عذاب
رورہا تھا آسماں خود دیکھ کر قتلِ حُسین
کس طرح وہ دُور کرتا جانثاروں کا عذاب
کیوں نہیں مانوس پھر آنکھیں تری پتھرا گئیں
جن سے دیکھا ہے یہاں تُو نے ہزاروں کا عذاب