کتاب کاعنوان :عکس آواز
مصنف: انور ظہیر رہبر , برلن ۔ جرمنی
مبصر : خواجہ کوثر حیات
ادیب کی تحریر اس کی شخصیت، اس کی سوچ، بصیرت انگیزی، فکری جہت، انسانی نفسیات و زندگی کے تئیں اس کے رویہ کی غماز ہوتی ہیں۔افسانوں کا مجموعہ ’عکس آواز‘ انور ظہیر رہبر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ افسانوں میں مضمر کہانیاں انسانیت کی بقاء اور زندگی کی تگ و دو اورصعوبتوں کی عکاسی کررہی ہیں۔ انور ظہیر رہبر سماج میں رونما ہونے والی چھوٹی بڑی برائیاں اور جذبوں کے سفاکانہ ظلم و بربریت پر گہری نظر اور عمیق مشاہدہ رکھتے ہیں۔
جناب انور ظہیر رہبر صاحب نے جامعہ کراچی سے فزکس میں بی۔ ایس ۔ سی اور ماسٹرز، اپلائیڈ یونیورسٹی برلن جرمنی سے کیا ہے۔ آپ نے جرمنی سے جرمن۔ اردو۔ ہندی۔ پنجابی اور انگریزی زبان کے تراجم کا ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ آپ جرمنی کے محکمہ وزرات سے منسلک ہیں۔ وزرات خارجہ میں شعبہ اردو، تہذیب و ثقافت کے انچارج ہیں۔ اردو کی محبت میں آپ کا نجی ادارہ ’ایک چھت کے نیچے‘ کے تحت اردو، ہندی اور جرمن زبان سیکھائی جاتی ہیں۔
آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’تجھے دیکھتا رہوں‘بھارت کے شہر کولکتہ سے شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’سمندر پہ مکاں‘ اور دوسرا افسانوں کا مجموعہ’آسماں پہ اُڑتی تحریریں‘زیر طبع ہیں۔ آپ بہت جلد دوسری جنگ عظیم میں بچ جانے والوں کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب’ وقت کے گواہ‘بھی منظر عام پر لارہے ہیں۔ آپ نے سائنسی موضوعات پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ دو سائنسی مضامین کا مجموعہ بھی زیر طبع ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے’ ریڈیو آواز ادب برلن‘ کے نام سے نشریات کا ہفتہ واری سلسلہ بھی شروع کیا ہے جو برلن کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ریڈیو ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں انہوں نے’ برلن بلاگ‘لکھنا شروع کیا ہے جو بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے اور مختلف اخبارات سمیت ’’بلاگر.کوم ‘‘پر بھی پڑھا جا رہا ہے۔
ترقی یافتہ ملک میں رہ کر بھی انسانی نفسیات کی نمائندگی آپ کے افسانوں کا خاصہ ہے۔عکس آواز میں پیش کردہ افسانوں کی شناخت ان کی تکنیک اور اسلوب کے منفرد انداز سے ہوتی ہے۔ یہ افسانے زندگی کی حقیقتوں کو قارئین کے روبرو کرکے افسانہ نگار کی سماج میں رونما ہونے والے مسائل کی نشاندہی کو ظاہر کرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں انور ظہیر رہبر کے افسانے زندگی کے نشیب و فراز کے نقیب معلوم ہوتے ہیں۔ خصوصاً جب یہ افسانے عوامی مسائل کو آشکارا کررہے ہوں۔
یوں تو افسانہ نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر آج بھی انور ظہیر رہبر جیسے قلمکاروں نے اظہار خیال کے لئے افسانوں کو ہی ذریعہ بنایا ہے۔ دیار غیر میں اردو ادب کی آبیاری کرنے والی شخصیت اردو ادب برلن کے نائب صدر جناب انور ظہیر رہبر صاحب جو ہمہ وقت فروغ اردو زبان وادب کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اچھے شاعر کے ساتھ فن افسانہ نگاری کا کمال ہنر رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنے افسانوں میں عالمی مسائل پر قلم کو جنبش دی اور آج رونما ہونے والے کئی بڑے مسائل کا فنکارانہ انداز میں احاطہ کیا ہے۔
’عکس آواز‘ افسانوں کا مجموعہ بے کفن محبت، آوازیں، سرد خانے میں، ہاتھ سے جنت بھی گئی، بس پڑاؤ،47 کلو میٹر، شکنیں اپنے عنوان سے ہی قارئین کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عکس آواز جناب انور ظہیر رہبر صاحب کی بہترین کاوش ہے۔ انور ظہیر رہبر سماج میں پھیلے درد کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے احساسات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے اسے ایک افسانہ کی شکل میں پیش کرکے معاشرے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔
انور ظہیر رہبر اپنے اطراف بہترین ادبی ماحول رکھتے ہیں۔ گھر ہو یا احباب آپ نے اپنے اطراف ادبی ماحول کو ہی دیکھا ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوع اور بنت و پلاٹ دعوت فکر دیتے ہیں۔ اپنے افسانے بے کفن محبت میں بطورِ طالبعلم لاش کے سامنے جو ایک دوشیزہ کی تھی، کھڑے افسانہ بُن رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر طالب علم کو ہدایت دی جاتی ہے کہ لاش کو بہت احتیاط کے ساتھ اُس کے اعضاء کے متعلق معلومات حاصل کرنا ہے، مگر اس لاش نے انور ظہیر رہبر میں موجود افسانہ نگار کو مجبور کردیا اور وہ اس کی مظلومیت کا درد اپنے اندر محسوس کرنے لگے، جو سماج کے ظلم وستم کا شکار بنی تھی۔ درد کا احساس انہیں اس لاش کو احترام سے سپرد خاک کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اور وہ خلاف اصول اس لاش کو قبرستان میں دفن کرواتے ہیں۔ جو شخص لاش کے درد کی کسک کو محسوس کرے وہ کس کمال کا دردمندانہ و حساس دل رکھتا ہوگا بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
انور ظہیر رہبر عام فہم زبان اور سادہ اسلوب میں کہانی کو فنکارانہ انداز میں مہارت سے پیش کرتے ہیں۔ اپنے افسانے’آواز یں‘میں بھی وہ سماج سے کشید کیے گئے عورت کے مسائل کی منظر کشی کرتے ہیں۔ انور ظہیر رہبر چونکہ جرمنی کے شہر برلن میں مستقل سکونت پذیر ہیں اس لیے ان کے افسانوں کی یہ خاصیت ہوتی ہیکہ منظر کشی کے فن سے آپ اس مقام کی سیر ایسے کروادیتے ہیں، جیسے آپ سفر نامہ پڑھ رہے ہوں۔ افسانہ’منزل‘ پڑھ کر سفر نامے کا ہی گمان ہونے لگتاہے۔یہی پہلو انور ظہیر رہبر کے افسانہ ’لائن نمبر 7‘میں بھی نظر آتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’برلن کی زمین دوز ٹرین لائن نمبر7 سب سے طویل لائین ہے جو مسافروں کو برلن کے شمال سے جنوب تک پہنچاتی ہے اور سب سے تیز رفتار بھی۔‘‘
افسانے میں زمین دوز ٹرین کا ذکر،سرعت سے بھاگتے وقت کی رفتار،شب و روز کی دوڑ دھوپ کو وقت کے میزان میں پیش کرکے تیز رفتار آگے بڑھنے والے ترقی یافتہ ملک کی بنیادی خصوصیات کو بھی قارئین سے متعارف کروادیا۔ جہاں ہر گذرنے والے سیکنڈ کی قدروقیمت ہے لیکن اس کے باوجود اس تیز رفتاری میں جرائم نے نئی نسل اور خواتین کو بھی کس طرح جکڑا ہوا ہے اور منشیات کی خریدوفروخت جیسے عالمگیر مسئلہ کو بھی خوب مہارت سے اجاگرکیا ہے۔
انور ظہیر رہبر کی دوررس نگاہ جہاں بڑے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے وہیںکسمپرسی اور لاوارث زندگیوں کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ افسانہ ’سرد خانے میں‘ ایک لاوارث، بے یارومددگار مجبور شخص کی کسمپرسی کا احاطہ کرتی ہے۔افسانہ عموماً کہانی پن سے مزین و مرصع ہوتے ہیں مگر جب اس کہانی پن کے ساتھ بڑے اور اہم موضوعات کو قلمبند کیا جاتا ہے تو کہانی صرف افسانہ نہ رہ کر سماج کا حقیقی عکاس بن جاتی ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جناب انور ظہیر رہبر کے افسانوں کا مجموعہ ’عکس آواز‘ سماج کا بہترین نقیب ہے۔ جو انور ظہیر رہبر کی نظریہ فکر کو افسانوں میں منتقل کر کے سماج کے تئیں ادیب کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی نمایاں کرتا ہے۔
89