ہندوستان اس وقت نازک مرحلے پر، یکساں نظریہ رکھنے والوں کا مل کر لڑنا ناگزیر
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن کی سوانح حیات کی رسم اجرائی کی تقریب پر عمر عبداللہ کا خطاب
سرینگر/یکم مارچ/مصیبت کی گھڑی میں ہی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اصلی دوست اور ہمدر کون ہوتا ہے؟جموںوکشمیر کے لوگ جن مصائب سے گذرے اُس کا ہم نے کبھی اندازہ بھی نہیں لگایا تھا،جو کچھ ہمارے ساتھ 5اگست2019کو کیا گیا، کسی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ کبھی ایسا بھی ہوگا۔اُسی وقت ہمیں معلوم پڑا کہ ہمارے اصل دوست کون کون ہیں۔ ہمیں جن لوگوں کے دوست ہونے کا گمان تھا وہ خاموش بیٹھے۔ بہت سارے لوگوں کے بارے میں ہم نے سوچا تھا کہ وہ جموں وکشمیر کیساتھ ہورہی ناانصافی کیخلاف آواز اُٹھائیں گے، لیکن انہوں نے لب کشائی تک نہیں کی۔ جن کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات تھے وہ نہ صرف خاموش تھے بلکہ ہمارے ساتھ ہورہی ناانصافی کی حمایت کررہے تھے۔لیکن جموں وکشمیر سے بہت دور ہونے کے باوجود بھی جس طرح سے تمل ناڈو میں ہمارے ساتھ ہورہی ناانصافیوں کیخلاف آواز اٹھی وہ آواز ہم تک ضروری پہنچی۔جس طرح سے یہاں کے وزیر اعلیٰ جناب سٹالن صاحب ، اُن کے ساتھیوں اور تمل ناڈو کے لوگوں نے جموں و کشمیر کے عوام کیساتھ ہورہی ناانصافی کی مذمت کی اُس کیلئے ہم آپ کے تہیہ دل سے شکر گذار ہیں اور میں جموںوکشمیر کے عوام کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔سی این آئی کے مطابق ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے چنئی میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن کی سوانح حیات کی رسم اجرائی کی تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر ملک کے سرکردہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی، کیرلہ کے وزیر اعلیٰ پینارائے وجئے ین،بہار اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو، آر جے ڈی کے قومی ترجمان منوج کمار جاہ ، نیشنل کانفرنس لیڈر تنویر صادق اور تمل ناڈو کے کابینہ وزراء بھی موجود تھے۔عمر عبداللہ نے اپنا خطا ب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک اس وقت ایک نازک مرحلے پر ہے۔جس تصور پر ملک کھڑا تھا اُس کو حملوں کا سامنا ہے۔ آج ہمیں بتایا جارہاہے کہ ہمیں اپنی پسند کی آزادی نہیں ہے،ہم کسی مذہب کی پیروی کریں یا نہ کریں اور اگر کریں تو کتنی کریں، یہ بھی ہم پر مسلط کیا جارہاہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’ایک ہندو کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ زعفرانی لباس پہنے یا نہیں، وہ اپنے ماتھے پر تلک لگائے یا نہیں؟ایسے ہی ایک سکھ کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ پگڑی پہنے یا نہیں؟ اورایک مسلمان کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ ٹوپی پہنے ،دھاڑے رکھے، برقعہ پہنے، سکارف پہنے یا پھر حجاب، کیونکہ یہ سب ایک فرد اور اُس کے خدا کے درمیان ہے۔لیکن جس ملک کو ہندوستان کہتے ہیں، میں آج کچھ وجوہات کی بنا پر ہم سے یہ آزادی چھینی جارہی ہے۔اور یہ کہا جارہا ہے کہ یہ آزادی ہندوستان کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’میں کیا پہنو، کیا کھائوں، میں کسی مذہب کی پیروی کروں، اس کی آزادی ہندوستان کا اصل تصور تھا اور یہی اس کی سالمیت کو مضبوط کرتا تھا اور اگر ہم سے یہ آزادی چھینی جارہی ہے تو پھر ہم سے ہندوستان بھی چھینا جارہا ہے۔ہندوستان کے اس خیال کو بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کیلئے صحیح سوچ رکھنے والوں کا متحدہ ہونا ضروری ہے‘‘۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’اگر مرکزی حکومت کے منصوبے کامیاب ہوئے تو جناب سٹالن صاحب کو بحیثیت وزیرا علیٰ اس بات کی آزادی نہیں ہوگی کہ اُن کا ڈی جی اور چیف سکریٹری کون ہوگا؟ کیرلہ کے وزیر اعلیٰ کابینہ کی میٹنگ میں ہونگے اور اُنہیں ایک فون کال موصول ہوگی کہ اُن کا چیف سکریٹری تبدیل کردیا گیاہے۔کیا یہی وفاقی نظام ہوتا ہے؟کیا یہی ریاستوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ ہے؟ کیا ایسے ملک کو مضبوط کیا جاسکتا ہے؟کیا لوگوںکو بے اختیار کرکے ملک کی سالمیت قائم رہ سکتی ہے؟‘‘ ملک کی دیگر ریاستوں کو ہوشیار کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہ اکہ ’’یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جو جموں و کشمیر میں شروع ہوا وہ جموں وکشمیر میں ختم نہیں ہوسکتا۔ جموں وکشمیر میں کئے جارہے تجربے ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی دہرائے جاسکتے ہیں اور آج میں آپ کے سامنے ایک مظلوم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک وارننگ کے بطور کھڑا ہوں کی آپ کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟میری ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیااور یہ سب کچھ جموںوکشمیر کے عوام کی مرضی کے بغیر کیا گیا، اُن سے پوچھا تک نہیں گیا کہ آپ ایسا چاہتے ہیں یا نہیں؟آئین کو تہس نہس کیا گیا،یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ ایک ریاست کا درجہ کم کرکے اسے ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ہو۔ گورنر نے جموںو کشمیر میں تبدیلیاں لانے کیلئے نہ صرف اسمبلی کے اختیارات حاصل کئے بلکہ خود کو آئین ساز اسمبلی کے اختیارات بھی تفویض کئے۔کل انہیں (مرکز کو) تمل ناڈو یا کرالہ میں ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے؟میں جموں وکشمیر کے عوام کی طرف سے یہ پیغام لیکر آیا ہوں کہ جو جموں وکشمیر میں شروع ہوا وہ جموں وکشمیر میں ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک نظریہ رکھنے والی جماعتیں ایک ہوکر لڑکیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں، یہ ایک صحیح اور انصاف پر مبنی جدوجہد ہے۔یہ لڑائی ایک سیاسی جماعت کیخلاف نہیں بلکہ ایک پوری مشینری کیخلاف ہے، جس میں بڑے بڑے ادارے شامل ہیں، اس لئے جدوجہد آسان نہیں ہوگی، لیکن ہمیں جدوجہد کرنی ہے کیونکہ ہماری جدوجہد سچ پر مبنی ہے۔
