عورتوں میں ڈپریشن: ایک عام بیماری 141

عورتوں میں ڈپریشن: ایک عام بیماری

ڈاکٹر نذیر مشتاق

ڈپریشن ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں مبتلا مریض کی مزاجی کیفیت ہروقت بدلتی رہتی ہے۔ مسلسل اضطراب ، بے چینی ،پریشانی ، چڑچڑاپن ،پست ہمتی ،جذبات واحساسات سے عاری خیالات، نااُمیدی ، خوف اور کچھ کھونے کا ڈر جیسے علائم ہر وقت سائے کی طرح اُس کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔ مایوسی ،ناخوشی یا افسردگی اور ڈپریشن(صحیح معنوں میں) کے درمیان ایک ایسی دُھندلی سرحد ہے جسے عام لوگ یا مریض پہچان نہیں سکتے ، وہ اس بیماری اور اس کے علائم کو نظر بد ، جادو ٹونا ، بدقسمتی وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف ایک ماہر معالج ہی مایوسی اور ڈپریشن میں فرق کرسکتاہے ۔ اگر کسی فرد کا کوئی اپنا جسے وہ بہت چاہتا ہو ، ہمیشہ کے لئے اُس سے رُوٹھ کر چلا جائے تو اس کا مایوس اور افسردہ ہوکر کچھ دنوں تک آنسو بہانا ایک فطری عمل ہے لیکن ڈپریشن (جو کہ ایک مخصوص بیماری ہے)میں مبتلا مریض کی مایوسی اور افسردگی طویل مدت تک جاری رہتی ہے اور وہ دیگر علامات محسوس کرنے لگتاہے جیسے کہ بے اشتہائی ، وزن کی کمی ، سوچنے سمجھنے میں دشواری ، احساس خستگی ، روزمرہ کے کامو ں میں دل نہ لگنا، کوئی بھی فیصلہ کرنے میں دشواری ، بے خوابی ، جنسی بے حسی اور کمزوری ، احساس ضعف ،آنکھوںاور سینے میں دبائو، سرکا بھاری بھاری یا خالی سا لگنا ، احساسِ گناہ، ہروقت پچھتاوے کا احساس ، خودکشی کے خیالات، خودکشی کی کوشش اور انجام کارخودکشی ۔ یہ صحیح ہے کہ متذکرہ علامات کسی بھی مریض میں بیک وقت ظاہر نہیں ہوسکتیں لیکن ان میں سے پانچ یا اس سے زیادہ علامات کا ایک یا دو ماہ سے زیادہ مدت تک جاری رہنا ڈپریشن کی طرف اشارہ کرتاہے۔ڈپریشن ایک قدیمی مرض ہے جو کسی بھی جنس، مذہب ،فرقہ ،رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے، کسی بھی انسان کو ، زندگی کے کسی بھی موڑ پر ، اپنی گرفت میں لے سکتاہے لیکن حالیہ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ڈپریشن مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ تراپنی گرفت میں لیتا ہے حالانکہ دورِحاضر میں مرد وزن دونوں اس بیماری کے شکار ہوجاتے ہیں لیکن جسمانی ،سماجی اور حیاتیاتی وجوہات کی بنا ء پر صنفِ نازک میں اس بیماری کی شرح دوگنی ہوگئی ہے ۔ پچاس فیصد عورتیں موروثی وجوہات کی بناء پر اس بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں ۔وجوہات:۱-زنانہ ہارمون: یہ سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے ۔ عورتوں کے جسم میں چرخ ہارمون مردوں سے مختلف ہوتاہے اور یہی اہم فرق عورتوں کو ڈپریشن کے زیادہ قریب لے جاتاہے ۔ عورت کی زندگی کے مختلف ادوار میں ہارمونوں میںتبدیلی رونما ہوتی ہیں۔ سنِ بلوغت ،ماہانہ قاعدگی ، ماہواری سے قبل ذہنی دبائو ،زچگی ایام بعد از چگی ، مانع حمل گولیوں کا استعمال اور پھر سنِ یاس ، ان سب حالات میں اُس کے جسم میں زنانہ ہارمون کی تبدیلیاں عمل میں آتی ہیں جس سے اس کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں…اکثر عورتیں ماہانہ قاعدگی کے آغاز سے پہلے لگاتار ذہنی دبائو ،تناؤ اور کھچائو اور افسردگی میں مبتلا ہوتی ہیں …اور عام عقیدہ ’’ماں بننا عورت کی سب سے بڑی خوشی ہے ‘‘ ، کے برعکس نوماہ عورت ذات کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کے نہیں ہوتے کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہواہے کہ بیس فیصد عورتیں دورانِ حاملگی ڈپریشن کے نظرنہ آنے والے قید میں مقید ہوجاتی ہیں ۔ اس کی وجہ مسلسل ذہنی دبائو اور زنانہ ہارمون میں تبدیلیاں ہے۔ سن یاس کو گلے لگاتے ہی عورت شدید افسردگی کی شکار ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے جسم میں زنانہ ہارمون الیسٹروجن ترشح ہونا بند ہوجاتاہے اور اس ہارمون کی کمی سے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اب یہ محض افسانوی یاسنی سنائی بات نہیں بلکہ سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات نے تحقیقات سے ثابت کیا ہے کہ عورت زندگی کی دوڑ میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ دبائو اور تنائو کا شکار رہتی ہے جس سے اس کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات مردوں کی نسبت زیادہ واضح ہوتے ہیں ۔صنفِ نازک ، زندگی کے سفر میں ہر پل ، ہر لمحہ کسی نہ کسی ذہنی دبائو کا شکار ہوتی ہے ۔ اپنا گھر ، بچوں اورشوہر کی فکر ، دفتر میں کام کاج کا دبائو ، بازار میں سبزی فروش سے لے کر دوا فروش کی دکان پر خریداری کے وقت غیرمعمولی ذہنی دبائو ، گھر لوٹنے میں گھر میں موجودیا ضرورت کی چیزوں کی فکر، ساس سسرکی خدمت کا خیال ،وغیرہ وغیرہ ، اسے ہر وقت ذہنی پریشانی اور دبائو میں مبتلا کرتے ہیں …اور پھر عورتیں مردوں کے مقابلے میں قدرتی طور ’حد سے زیادہ حساس ‘ اور ’زیادہ سوچنے والیاں‘ ہوتی ہیں ۔ ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق ایک عورت ہر لمحہ کسی نہ کسی چیز کے بارے میں سوچتی رہتی ہے حالانکہ کئی مشہور فلاسفروں کی رائے یہ ہے کہ عورت سوچتی کم اور سمجھتی زیادہ ہے‘‘۔ بات زیادہ سوچنے یا زیادہ سمجھنے کی ہو ،دونوںوجوہات ڈپریشن کیلئے راہ ہموار کرتی ہیں ۔بعض ماہرین نفسیات کا کہناہے کہ عورت ذات کی زندگی کے اُتار چڑھائو کا صحیح ڈھنگ سے مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ وہ زندگی کی تیز رفتار گاڑی کو اچھی طرح کنٹرول نہیں کرپاتی ہے اس لئے کسی نہ کسی موڑ پر ڈپریشن کے گہرے گڑھے میں پھنس جاتی ہے ۔دورِ حاضر میں بھی جبکہ انسان ترقی کی بلندیوںکو چھو رہاہے عورت مظلوم اور محکوم ہے ۔ گھر کی چار دیواری میں وہ اکثر تشدد کا شکار ہوجاتی ہے ۔ بسا اوقات اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ جنسی پیاس بجھانے کے لئے اس کی عصمت دری کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ عورتوں پر مختلف قسم کے سماجی دبائو مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں ۔ آج بھی عورت ذات مکمل سماجی آزادی سے محروم ہے ‘ اس کے ’’اظہارِ جذبات ‘‘ پر پابندی ہے ۔ یہ سب محرکات اسے ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے لئے اہم رول ادا کرتے ہیں …اچھی بیٹی، خوبصورت ونیک سیرت محبوبہ یا بیوی ، وفادار شریک حیات ، خدمت گزار اور تابعدار بہو اور ایک مثالی ماں بننے کی ’’مجبوریاں ‘‘ کے علاوہ شرم وحیاء کے بوجھ تلے دبے رہ کر اپنی عفت وعصمت کی نگہداشت کی ہر وقت لاحق فکر ، اس کے ڈپریشن کی زنجیروں میں بندھ جانے کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں …شادی کے بندھن میں بند ھ جانے کے بعد رسم وفا نبھانے کا دبائو ، طلاق کا ڈر، دورانِ حاملگی کے حالات وواقعات ، اور پھر بچوں کی پرورش اور ان کے روشن مستقبل کی پریشانیاں ، اسے مسلسل ذہنی دبائو میں مبتلا کرکے اُسے ڈپریشن کے قریب ترلاکھڑا کرتی ہیں ۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورت ذات کو اپنے آپ سے زیادہ شوہر اوربچوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ اپنی طرف بالکل کم توجہ دیتی ہے مگر گھر میں اس سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں اور وہ اپنے ’’معیار‘‘ اور توقعات پر پورا اُترنے کی سعی میں ہروقت مسلسل ذہنی دبائو اور تنائو کا شکار ہوتی ہے جس سے اس کے ڈپریشن جیسی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتاہے ۔کئی ماہرین امراض نفسیات کی رائے ہے کہ جنسی عمل میں بھی عورت کا کردار اس کے لئے اکثر باعثِ پریشانی ہوتا ہے۔عمومی طور پر اس عمل میں بھی اسے بار بار ایسی کسوٹی پر اُترنا پڑتاہے جس سے وہ ذہنی طور مفلوج ہو کے رہ جاتی ہے اور یہ بھی اسے ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے لئے کافی ہوتاہے ۔جذباتی ہم آہنگی عورتوں میں ،مردوں کی نسبت ، زیادہ بہتر ہوتی ہے ۔ان کے دماغ کا لمبک سسٹم (Limbic system) زیادہ تکامل یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے محسوس کرسکتی ہے یعنی بالفاظ دیگر عورت مرد سے زیادہ حساس ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے انہیں ہروقت ڈپریشن کا خطرہ لاحق رہتاہے ۔ حد سے زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے وہ زودرنج ہوتی ہیں اورمعمولی باتوں پر بوکھلا جانے کے علاوہ دل برداشتہ بھی ہوجاتی ہیں جس سے ان کے ذہن پر دبائو پڑتارہتاہے ۔اکثر ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ اپنے کسی سے جدائی اور کوئی بھی پریشانی عورتوں کو حد سے زیادہ مایوس اور رنجیدہ کرتی ہے اور یہ کسی عورت میں پہلے ہی سے موجود کم شدت کی ڈپریشن کو شدید تر کرسکتی ہے ۔ نفسیات سے وابستہ محققین نے ثابت کیا ہے کہ عورت اپنے دل کا حال پوری طرح عیاں نہیں کرتی ہے ، وہ اکثر راز اپنے دل کے اندر ہی چھپائے رکھتی ہے (دوسروں کے رازوں کو فوری عیاں کرتی ہے) جس سے اس کے دل پر ہر وقت ایک عجیب سا بوجھ ہوتاہے اور جب یہ بوجھ حد سے گزر جاتاہے اور عورت اسے برداشت نہیں کرپاتی تو وہ ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔بعض ماہرین نفسیات کے مطابق عورتوں کا’’جذباتی عکس العمل‘‘ مردوں کے مقابلے میں شدید ہوتاہے اور چونکہ وہ اس سے پیدا ہونے والے ’’درد‘‘ کو ماننے یااپنانے سے انکارکرتی ہیں اور اسے دماغ کے تہہ خانے میں دفناتی ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتیں کہ وہ درد ان کے لاشعور میںدبا رہتاہے اوریہی لاشعوری درد ،زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی بھی وقت ان کے لئے باعث ِ ڈپریشن بن جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عورت ہمیشہ مدد کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے مگر اپنی مدد کے لئے دست دراز کرنے میں ہچکچاتی ہے۔ دوسروں سے مدد حاصل کرنا ، عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ بے شک وہ مردوں کے مقابلے میں اپنے جذبات واحساسات دوسروں کے ساتھ زیادہ اور بہتر طریقے سے بانٹ لیتی ہیں مگر اپنے لئے بہت کم(پیشہ ورانہ) مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ دفتروں، گھروں ، تفریحوں یا مجلسوں میں عورتیں شاید زیادہ گپ شپ کرنے میں مصروف نظر آتی ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے مسائل کے بارے میں دوسروں سے مشورہ کریں ۔ ایک عورت کے لئے اس کا اپنا گھر ہی سب کچھ ہوتاہے اس کی چھوٹی سی دنیا اس کے شوہر اوربچوں کے گرد گھومتی ہے اس لئے ناموافق حالات میں بھی وہ اپنے آپ سے زیادہ اُن ہی کو ترجیح دیتی ہے اور ان ہی کے بارے میں سوچتی رہتی ہے ۔ وہ اس لئے ایسا کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی ملکہ بنی رہے اور یہ عہدہ سنبھالے اور بنائے رکھنے کے لئے اسے بے شمار پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ وہ مسلسل ذہنی دبائو اورتضاد کا شکار رہتی ہے اور نتیجہ …کسی خاص موڑ پر ڈپریشن کی ظالم دیوی اسے دبوچ لیتی ہے ۔ماہرین نفسیات کی حالیہ تحقیقات سے ثابت ہواہے کہ اس الٹرا ماڈرن مادّی دور میں عورتیں اپنے آپ کو کسی سے کمتر سمجھنے کو صنفِ نازک کی توہین سمجھتی ہیں ۔ وہ کسی بھی صورت میں کسی کو یہ تاثر دینا نہیں چاہتیں کہ وہ جسمانی ، ذہنی ، سماجی ، اقتصادی طور کسی اور سے کمتر ہیں اور انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔ اگر وہ کسی سے سہارا مانگنے کے بارے میں سوچ لیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے جارہی ہیں ، وہ ٹوٹ چکی ہیں اور ان کی زندگیوں میں کوئی خاص مسئلہ جس کے بوجھ تلے وہ دَب کے رہ چکی ہیں ۔ ایسا تو وہ کر نہیں سکیں کیونکہ ان کی خودی مجروح ہوسکتی ہے اور وہ اپنی خودی کو ہر شئے سے بالاتر سمجھتی ہیں ۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنی انا کے قفس سے باہر آنا نہیں چاہتی ہیں مگر ان کے مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں ۔ اس طرح وہ لگاتار ایک خاص قسم کے ذہنی تضاد کی شکار رہتی ہیں اور اس بات سے بے خبر زندگی کے دیو کے ساتھ لڑتی رہتی ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ جنگ ہارکر مایوسی اور افسردگی کی دلدل میں ڈوب سکتی ہیں۔کشمیری عورتوں میں (بالخصوص درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں میں) ڈپریشن ایک عام بیماری ہے …ہزاروں لاکھوں عورتیں اس اذیت ناک بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں ہیں ۔ انہیں گھر کے اندر یا باہر شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ، ان پر فقرے اور طعنے کسے جاتے ہیں ، ان پر الزام تراشیاں کی جاتی ہیں اورہروقت ان کے جذبات کومجروح کیا جاتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عام لوگوں کو اس بیماری اور اس کے ظاہر ہونے والے علائم کے بارے میں کوئی واقفیت نہیں ہے ۔ آج بھی لوگ اسے کوئی مخصوص بیماری تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ عام لوگ اس بیماری کا علاج کروانے نقلی پیروں فقیروں کے پاس جاتے ہیں ، جس سے ان کی بیماری کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتاہے اور ایک وقت آتاہے جب مریض خودکشی کا مرتکب ہوتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بیماری کے متعلق ہر فرد مکمل مفصل جانکاری حاصل کرے تاکہ گھر میں اگرکوئی فرد(خاص کر عورت) اس بیمار ی میں مبتلا ہو،اس کا بروقت علاج ہو اور ہر ایک خوش وخرم زندگی گذارنے میں کامیاب ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں