11

لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی دونوں ممالک کے مفاد میں

5آگست کے بعد پتھر بازی کے واقعات میں کمی//ڈی پی پانڈے
سری نگر21،فروری //جموں و کشمیر میں نیا معمول زندگی کا طریقہ بنتا جا رہا ہے اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی دونوں ممالک یعنی ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں ہے جبکہ جنگ بندی کا سب سے زیادہ فائدہ کنٹرول لائن پر رہنے والے لوگوں کو ہے۔جموں کشمیر پولیس،سی آر پی ایف ، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سول انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ قریبی ہم آہنگی رکھتے ہوئے قابل ستائش کام کررہے ہیں تاہم 05 اگست 2019کے بعد سیکورٹی فورس کی کارروائی کی وجہ سے پتھراؤ کے نہ ہونے کے برابر پر تشدد واقعات رونما ہوئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے اس دوران کوئی شہری ہلاکت نہیں ہوئی اورصورتحال بڑی حد تک نارمل رہی ہے اور آج میںٹیم سیکورٹی فورسز اور سول ایڈمنسٹریشن کے ایک رکن کے ناطے کہہ سکتا ہوا کہ وادی میں جس طرح سے امن و امان قائم ہوا ہے اس سے میں بہت حد تک مطمئن ہوں کیونکہ سیاحت پھل پھول رہی ہے، کاروبار اچھا چل رہا ہے اور وادی میں نیا معمول زندگی کا طریقہ بنتا جا رہا ہے۔ ان باتوں کا اظہار سرینگر میں قائم چنار کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے( کے این ایس ) کشمیر نیوز سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ امن کو برقرار رکھنا تمام سیکورٹی فورسز کا بنیادی مقصد رہا اور ہمارے مؤثر اینٹی انفلٹریشن گرڈ، لائن آف کنٹرول پرجنگ بندی کے علاؤہ انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی قابل اطمینان کام کی وجہ سے تشدد کے تمام پیرامیٹرز میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور سیکورٹی فورسز کی ان کوششوں سے تشدد کا گراف کم ہوا ہے جس میں او جی ڈبلیوز کے نیٹ ورک کو ہدف بنانا تھا جس کیاچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں جبکہ اسلحے، گولہ بارود اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جب عسکریت پسندوں اور ان کے ہینڈلرز کی صلاحیت کو بری طرح سے نقصان پہنچایا تو وہ آسان اہداف کو نشانہ بنا نے لگے اور اس طرح کی کارروائیاں ان عسکریت پسندوں اور ان کے ہینڈلرز کے حقیقی نظام کو بے نقاب کرتی ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ نیا چیلنج جو ہمارے سامنے ہے وہ ہے جنگجوں کا عام شہریوں کو نشانہ بنانا جن میں ہندو، سکھ اقلیتوں، خواتین، سیکورٹی فورس کے افراد جو چھٹی پر ہوتے ہیں، نچلے درجے کے سیاسی کارکنان، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور، دکاندار اور سماجی کارکن وغیرہ شامل ہیں کو قتل کرنا ہے جن کے پاس سیکورٹی کور نہیں ہے۔ فوج اور شہریوں کے تعلقات کو مستحکم بنانے کیحوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی پی پانڈے نے کہا کہ جی ہاں سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنی کی ایک مسلسل کوشش کی جارہی ہے حالانکہ اس کے لئے ہمیشہ بہت کچھ کرنا ہوتا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ہندوستانی فوج کی ایک طویل روایت ہے کہ وہ شہریوں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے رہے ہیں۔فوجی آفیسر نے کہا کہ ہندوستانی فوج کا یہی جذبہ ہے کہ وہ انسداد شورش کی کارروائیوں کو انجام دینے کے لئے مسلسل کام کرتی رہتی ہے تاہم فوج کی یہ ہمیشہ کوشش رہی کہ جانی نقصانات خاص کر عام شہریوں کو بچانے کے لئے کم سے کم طاقت کا استعمال کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر ثقافتی پروگراموں، کھیلوں اور لوگوں کو بااختیار بنانے کی سرگرمیوں میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی شرکت خوش آئند ہے کیونکہ وہ تشدد کے خوف اور معمول کی زندگی میں خلل کے باعث متاثر ہوئے تھے۔ ثقافتی اور کھیلوں کی تقریبات میں فوجیوں اور شہریوں کے رابطے میں زبردست بہتری آئی ہے اور اس طرح کی تبدیلی کو ہم گزشتہ سال سورنم وجے ورش کی تقریبات کے دوران دیکھنے کو ملی تھی جبکہ پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ میں فتح کا جشن کشمیر کے طول و عرض میں منایا گیا جہاں شہریوں کو تمام تقریبات میں فوجیوں کے ساتھ فخر سے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔کور کمانڈر نے کے این ایس کو مزید بتایا کہ ثقافتی تقریبات میں سیکورٹی فورسز کی شمولیت اور شرکت جس میں جنون ہنر، ولر فیسٹیول، میوزک فیسٹیول، دودھپتھری فیسٹیول، جشنِ بارہمولہ کے علاؤہ کھیلوں کے ایونٹس/ٹورنامنٹ جیسے ویمن کرکٹ پریمیئر لیگ، کشمیری گرلز ہاکی ٹورنامنٹ، کشمیر پریمیئر لیگ، شوپیان میں جشن–چلئی کلاں وغیرہ شامل ہیں نے ہمیں مقامی ٹیلنٹ کی شناخت اور فروغ دینے میں مدد دی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ بارہمولہ میں خواتین کی 65 کلومیٹر لمبی سائیکل ریس خاص طور پر اطمینان بخش تھی اور میں مخلصانہ طور پر کوشش کررہا ہوں کہ سپاہیوں اور شہریوں کے درمیان مزید تال میل بڑھے تاکہ وہ کندھے سے کندھا ملا کر اچھا وقت گزارے اور کام کریں۔جموں و کشمیر میں سدبھاونا پروگراموں کی کامیابی پر فوج کے اعلی ترین آفیسر نے کشمیر نیوز سروس کو اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سدبھاونا پروجیکٹس لوگوں کے ساتھ جذباتی تعلق برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سدبھاونا (گوڈ ویل) ہندوستانی فوج کی طرف سے سابقہ ریاست جموں و کشمیر میں شروع کی گئی ایک منفرد انسانی پہل ہے جو پاکستان کی طرف سے اسپانسر شدہ اور اس کی حمایت یافتہ عسکریت پسندی سے متاثرہ لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا گیا اور اس طرح کے پروگرام سے جموں و کشمیر کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو مدد فراہم ہوئی ہے جبکہ عسکریت پسند گروپوں کے اثر و رسوخ کو روکنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ کشمیری معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے پر مرکوز ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں