سری نگر15،فروری/نیشنل کانفرنس نے حد بندی کمیشن کے سامنے اپنی دوسری مسودہ رپورٹ پر اعتراضات داخل کیے ہیں، جس میں جموں و کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے؛جنوبی کشمیر کے ممبر پارلیمنٹ حسین مسعودی نے کہا کہ حد بندی کمیشن نے اپنے رپورٹ میں بنیادی رہنمائی خطوط کو ہی نظر انداز کیا ہے کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے این سی پارلیمنٹ جسٹس (ریٹائرڈ) حسنین مسعودی نے کہا کہ انہوں نے کمیشن کے سامنے اعتراضات داخل کیے ہیں۔، “انہوں نے کہاکہ ہمارا پہلا اعتراض تھریشولڈ اعتراض تھا، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تنظیم نو کا ایکٹ، جو 5 اگست 2019 کے بعد وجود میں آیا، عدالتی جانچ کے تحت ہے۔ سپریم کورٹ اس کے آئینی جواز کی جانچ کرنے میں مصروف ہے لہذا حد بندی ایکٹ کی درخواست اور جموں و کشمیر میں توسیع بھی عدالتی جانچ کے تحت ہے انہوں نے کہا کہ ایک اور اعتراض جو انہوں نے اٹھایا وہ یہ ہے کہ اس تجویز میں آبادی کو دوسرے اصولوں اور شرائط پر ترجیح دی گئی ہے۔یہ ہمیشہ ذہن میں رکھنے کا پہلا معیار ہے، لیکن مسودہ تجویز جموں و کشمیرکی اصل آبادی کو مدنظر رکھے بغیر تیار کیا گیا ہے،ممبر پالیمنٹ نے کہاکہ ایک حلقہ ایسا ہے جہاں 1.92 لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر ہے جو کہ ڈورو حلقہ ہے۔ “پھر آپ کے پاس ایسے حلقے ہیں جہاں آپ کی آبادی 50ہزار ہے یا یوں کہہ لیں کہ ایک لاکھ سے کم ہے۔ اب کیا ہوگا، تین حلقے ہیں، جبکہ ڈورو میں صرف ایک ممبر ہوگا۔ تو حد بندی کا مقصد ہی ناکام ہو جاتا ہے،‘‘ مسعودی نے کہا کہ ان کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ رہنما خطوط کے مطابق کمیشن کو حلقہ بندیوں کی حد بندی کرتے وقت کنیکٹیویٹی کے اہم معیارات کو مدنظر رکھنا تھا اور انہوں نے ایک بار پھر بنیادی رہنما خطوط کو چھوڑ دیا ہے مسعودی نے کہا کہ اس طرح سے حد بندی کی رپورٹ تیار کرنا جموں و کشمیر کی تاریخ اور ثقافت پر حملہ ہے۔
